:: ارضِ جنت ::
ابھی نزاع میں ہے ارضِ جنت
کوئی مسیحا نہ کوئی حکمت
ہیں آفتوں کے پہاڑ سر پر
ہیں زحمتیں بر بنائے رحمت
ابھی ہے سکتے میں ہوشمندی
حصارِ آفت، یہ قید بندی
ہیں جاں کے لالے، زباں پہ تالے
نہ کوئی عرضی نہ عرضمندی
دھوئیں سے گولی کے جلتی آنکھیں
فسونِ شب سے پگھلتی آنکھیں
ہیں کمسنی کی، کسی جواں کی
یہ احتجاجی مچلتی آنکھیں
یہ کمسنی کا بیان لاشیں
نئی امنگ کی جوان لاشیں
حقوقِ انسانی سلب ہر سُو
گواہ جنت نشان لاشیں
جہاں ہے برفانی چھڑ کی عزت
جہاں کی کثرت میں روحِ وحدت
اُسی پہ سادھا گیا نشانہ
اُسی کی لُوٹی گئی ہے عصمت
نہ رودِ گنگا میں کوئی ہلچل
نہ آبِ جمنا میں عکسِ محمل
نئے وجود میں ہند آ رہا ہے
برس رہے گھنگھناتے بادل
کہاں گئی ہندیوں کی غیرت
کہاں ہے کثرت میں آج وحدت
کہاں گیا فخرِ ہند تشنہ
کہاں گئی اپنی شان و شوکت
کلام : مسعود بیگ تشنہ
ابھی نزاع میں ہے ارضِ جنت
کوئی مسیحا نہ کوئی حکمت
ہیں آفتوں کے پہاڑ سر پر
ہیں زحمتیں بر بنائے رحمت
ابھی ہے سکتے میں ہوشمندی
حصارِ آفت، یہ قید بندی
ہیں جاں کے لالے، زباں پہ تالے
نہ کوئی عرضی نہ عرضمندی
دھوئیں سے گولی کے جلتی آنکھیں
فسونِ شب سے پگھلتی آنکھیں
ہیں کمسنی کی، کسی جواں کی
یہ احتجاجی مچلتی آنکھیں
یہ کمسنی کا بیان لاشیں
نئی امنگ کی جوان لاشیں
حقوقِ انسانی سلب ہر سُو
گواہ جنت نشان لاشیں
جہاں ہے برفانی چھڑ کی عزت
جہاں کی کثرت میں روحِ وحدت
اُسی پہ سادھا گیا نشانہ
اُسی کی لُوٹی گئی ہے عصمت
نہ رودِ گنگا میں کوئی ہلچل
نہ آبِ جمنا میں عکسِ محمل
نئے وجود میں ہند آ رہا ہے
برس رہے گھنگھناتے بادل
کہاں گئی ہندیوں کی غیرت
کہاں ہے کثرت میں آج وحدت
کہاں گیا فخرِ ہند تشنہ
کہاں گئی اپنی شان و شوکت
کلام : مسعود بیگ تشنہ
No comments:
Post a Comment