Sunday, August 27, 2023

Ghazal 2023

 :: غزل 27 اگست 2023 ::

ساعتیں کتنا آزماتی ہیں

مدتیں لانگھ لانگھ جاتی ہیں

ہے مشینوں میں موت کی سختی

زندگی بھی یہی بڑھاتی ہیں

فلسفہ زندگی کا ہے کچھ اور

یہ تصاویر کچھ بتاتی ہیں 

نیند آنکھوں سے دور رکھتی ہیں

کروٹیں کتنا آزماتی ہیں

نرم بستر پہ گرم دو سائے  

سلوٹیں خوب یاد آتی ہیں

ہے فضاؤں میں رقصِ تنہائی

حسرتیں گھنٹیاں بجاتی ہیں

کھیل "تشنہ" عجیب جاری ہے 

سازشیں بازیاں سجاتی ہیں

کلام : مسعود بیگ تشنہ

28 اگست 2023 ،اِندور ،انڈیا

#urdupoetry

#ghazal

#ghazal2023

#masoodbaigtishna

Thursday, June 16, 2022

Prof Gopi Chand Narang پروفیسر گوپی چند نارنگ

:: پروفیسر گوپی چند نارنگ نہیں رہے ::
آمد : 11 فروری 1931 دوکی،بلوچستان ،زیریں پنجاب (برطانوی ہند) رخصت : 15 جون 2022 شہر شیرلٹ، شمالی کیرولینا، یو ایس اے 
 ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بدھ کو شمالی کیرولینا (یو ایس اے) کے شہر شیرلٹ میں انتقال فرما گئے. آپ بیمار تھے اور امریکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے. آپ کے پسماندگان میں اہلیہ منورما نارنگ اور دو بیٹے ہیں. 
 تقسیمِ برطانوی ہند کے بعد آپ پاکستان سے ہندوستان آ گئے تھے. آپ کے والد معزز زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے. آپ کے والد نے ہی اپنے بیٹے کو ادب کی طرف مائل کیا. گوپی چند نارنگ صاحب نے دہلی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور شعبۂ تعلیم کی فیلوشپ حاصل کر کے پی ایچ ڈی کی. آپ کی تقرری عیسوی سنہ 1974 میں اردو کے پروفیسر کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی جیسی مقتدر یونیورسٹی میں ہوئی. آپ نے دو بار دہلی یونیورسٹی میں اپنی خدمات پیش کیں. غیر ملکی جامعات میں اپنی خدمات پیش کرنے کے دوران آپ وِسکونسن یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہے اور اوسلو یونیورسٹی اور مینیسوٹا یونیورسٹی میں بھی تعلیمی خدمات پیش کیں. سرائیکی آپ کی مادری زبان تھی. ہندی، اردو، فارسی، انگریزی پر آپ کو یکساں عبور حاصل تھا.
آپ کی غیر معمولی شہرت اردو کے نامور ادیب، نقاد، محقق،ماہرِ لسانیات، ماہرِ اسلوبیات ، نظریہ ساز اور میر و غالب شناس کے طور پر رہی ہے. آپ بھارتیہ تنقیدی اصول داں اور نظریہ ساز کے طور پر غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں. لسانیات، اسلوبیات، ساختیات اور پسِ ساختیات پر آپ کا کام اہم مانا جاتا ہے. عیسوی سنہ 1995 میں آپ کی تنقیدی کتاب 'ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات' پر آپ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا. مشرقی شعریات اور سنسکرت شعریات پر آپ نے سیر حاصل کام کیا ہے. 1961 میں آپ کی پہلی تصنیف 'دہلوی اردو کی کرخنداری بولی' پر منظر عام پر آئی جو دہلی کے مقامی مزدوروں اور کاریگروں کی مٹتی بولی ہے. 
آپ نے سنہ 2014 ع میں شونیتا (خالی پن) کے تناظر میں کلامِ غالب کی نئی تفہیم کی جو ابھی تک حرفِ آخر ہے. اردو املا اور تلفظ پر آپ کا ایک طویل مضمون اردو املا اور تلفظ پر کام کرنے والوں کے لئے آج بھی مشعلِ راہ ہے. تہذیب و ثقافت ،ادب اور تنقید پر آپ کی پینسٹھ (65) سے زیادہ تصنیفات ہیں. آپ کی تصنیفات کی تعداد اردو میں 40 سے زیادہ ، انگریزی میں 15 اور ہندی میں 8 ہے. اردو ادب کے سفیر کے طور پر بھی آپ کی کافی بین الاقوامی شہرت رہی ہے. نارنگ صاحب کے سماجی تہذیبی اور تواریخی مطالعات میں کچھ اہم مطالعات یوں ہیں : ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں (1961) ،سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ (1986) امیر خسرو کا ہندوی کلام (1987) ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب (2002) ،ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اردو شاعری (2003) ،اردو زبان اور لسانیات (2006). 
پدم شری، پدم بھوشن (بھارت)، ستارۂ امتیاز (پاکستان)، گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ا،دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ای امریٹس، 1998 سے 2002 تک نائب صدر اور 2003 سے 2007 تک ساہتیہ اکادمی کے صدر رہے. آپ کچھ عرصے پہلے تک ساہتیہ اکادمی کی سلیکشن کمیٹی سے منسلک رہے تھے. اردو اکیڈمی، دہلی اور اور قومی کونسل برائے فروغِ اردو، نئی دہلی کے بھی مختلف دورانیوں میں وائس چیئرمین رہے. آپ کی علمی، ادبی و ثقافتی خدمات کے لئے کئی ممالک میں آپ کو بین الاقوامی خطابات سے نوازا گیا. حکومتِ پاکستان نے اقبال پر فکر انگیز کام کے لئے آپ کو پریسیڈنٹز گولڈ میڈل سے بھی نوازا. آپ کی کچھ اردو تصانیف کے ترجمے انگریزی زبان میں بھی ہوئے ہیں. 
 ابھی حال ہی میں غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک اعزازی پروگرام بھی کیا تھا.
 اکیانوے سال کی لمبی عمر پانے کے بعد آپ کے گزر جانے سے تنقید، تحقیق اور لسانیات کے ایک زریں عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے.
ہر بڑی شخصیت کے ساتھ کچھ متنازعہ اور ناگوار باتیں بھی شاملِ تذکرہ رہتی ہیں. نارنگ صاحب کے تعلق سے یہ بات کافی مشہور ہے کہ انہوں نے ساہتیہ اکادمی میں اپنا دبدبہ اس حد تک بنا کر رکھا تھا کہ اردو کے کھاتے میں انعامات کی تقسیم صرف ان کی ذاتی پسند سے ہوتی تھی. ایک عرصہ ایسا بھی گزرا کہ ان کے رہتے ہوئے اردو کے کھاتے میں ایک انعام نہیں آیا. 
تقریباً پینتیس چالیس سال پہلے کی بات ہے. میں بیس پچیس سال کا رہا ہونگا. برہانپور میں ہر سال گنیش اتسو کے موقع پر دس روزہ ساروجَنِک ویاکھیان مالا (لکچر سیریز) کا انعقاد ہوتا تھا. (اب بھی شاید ہوتا ہو) جس میں ہندوستان کے ہر اہم شعبے کی نامی شخصیات کو اہم موضوعات پر سننے کا موقع مل جاتا تھا. گوپی چند نارنگ صاحب کا بھی لیکچر تھا. غالباً اسی تقریر کے سلسلے میں، میں نے گوپی چند نارنگ کو ایک خط لکھا تھا. ان کا جواب بھی آیا تھا. تب اردو میں ٹائپ رائٹر پر لکھا خط میں نے پہلی بار دیکھا تھا.
@مسعود بیگ تشنہ
15 جون 2022 ،اِندور ،انڈیا

Sunday, May 8, 2022

Maa माँ ماں

:: ماں ::
ماں توٗ کبھی حالتِ امن بھی رہی ہے! 
کبھی نہیں نا!! 
چھاتی کے دودھ سے گائے کے دودھ تک
تیرا ہی خون پانی ہوا نا!
تیری نیندیں پرائی اور خواب بے خواب
تیری بھوک، تیرا وقت صحرا میں سراب
پیٹ سے پیٹھ تک بچوں کا بوجھ  
کھلونوں سے کتابوں تک لمبا سفر

جب کہیں کوئی جنگ چھڑتی ہے
تیرے گھر، تیرے شہر کے پاس یا کسی ملک میں 
تو تجھے حالتِ جنگ میں ہونے کا احساس
کیوں مار ڈالتا ہے؟
توٗ جسے اپنے لئے
حالتِ امن سمجھتی رہی 
وہ بھی حالتِ جنگ ہی تھی نا!

ہاں، یہی سچ ہے 
ماں تو سدا حالتِ جنگ میں رہتی ہے
ماں تجھے سلام!
کلام : مسعود بیگ تشنہ
8 مئی 2022 ،اِندور ،انڈیا 

:: माँ ::
! माँ तू कभी हालते अम्न में भी रही है
!! कभी नहीं ना
छाती के दूध से गाए के दूध तक
! तेरा ही ख़ून पानी हुआ ना
तेरी नींदें पराई और ख़्वाब बे ख़्वाब
तेरी भूख, तेरा वक़्त सेहरा में सराब
पेट से पीठ तक बच्चों का बोझ
खिलौनों से किताबों तक लम्बा सफ़र

जब कोई जंग छिड़ती है
तेरे घर या तेरे शहर के पास
या किसी मुल्क में
तुझे हालते जंग में होने का एहसास
? क्यों मार डालता है 
तू जिसे अपने लिए
हालते अम्न समझती रही
! वह भी हालते जंग ही थी ना

हां यही सच है
माँ तो सदा हालते जंग में रहती है
! माँ तुझे सलाम
कलाम : मसूद बेग तिश्ना 
इंदौर, इंडिया 

Friday, February 25, 2022

Jung to Jung Hai جنگ تو جنگ ہے जंग तो जंग है

 یوکرین روس تنازعہ و جنگ کے پس منظر میں :

:: جنگ تو جنگ ہے ::

جنگ تو جنگ ہے بربادیِ اسبابِ حیات

ظلم تو ظلم ہے، انسان کہاں پائے نجات

حریت ہو یا بغاوت نہیں شائستہ مزاج 

کیا یہ قبضہ نہیں توسیع پسندی کا خراج

ہیں تجارت میں مددگار مگر اپنے ہات 

قدرتی سارے وسائل یہ بڑی تنصیبات

حکم دنیا پہ کسی ایک کا چل سکتا نہیں

دل کسی اور کی دولت پہ مچل سکتا نہیں

ہوں اگر متحدہ قومیں جہاں میں ساری

پھر تو پڑ سکتی ہے غاصب کو بھی کوشش بھاری

ظلم، افلاس، تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں

جنگ ظالم کی بھلائی کے سوا کچھ بھی نہیں

ظلم کو روکنا بھی جنگ ہے، گر ہو جائے

سرحدیں توڑنا بھی جنگ ہے، گر ہو جائے

راستہ صلح صفائی کا دکھانا بہتر 

امن کی فاختہ مل جل کے اڑانا بہتر

مسعود بیگ تشنہ@ 

٢٥ فروری ،٢٠٢٢،اِندور ،انڈیا 

#StandwithUkraine

Monday, February 7, 2022

Kaun ‎'Lata' ‎کون 'لتا ‏' ‏कौन ‎'लता ‎' ‏

:: اب کون 'لتا' کہہ لائے گی؟ ::
لو راکھ ہوا، لو خاک ہوا
یہ جسم، جہاں سے پاک ہوا
آواز مگر لہرائے گی
یہ یگ یگ آگے جائے گی
یہ نغمے، گیت، بھجن غزلیں
یہ سُر، یہ تال، سجن غزلیں
ویران ،اداس ہیں کس خاطر
شمشان کے پاس ہیں کس خاطر 
تہذیب و ثقافت کا پرچم
ایثار و محبت کا پرچم
اب کون یہاں پھیلائے گی؟ 
اب کون 'لتا' کہلائے گی؟ 
@مسعود بیگ تشنہ
7 فروری 2022 ،اِندور ،انڈیا

:: अब कौन 'लता' कहलाएगी? ::
लो राख हुआ, लो ख़ाक हुआ
ये जिस्म, जहाँ से पाक हुआ
आवाज़ मगर लहराएगी
ये युग युग आगे जाएगी
ये नग़मे, गीत, भजन, ग़ज़लें
ये सुर, ये ताल, सजन ग़ज़लें
वीरान, उदास हैं किस ख़ातिर?
श्मशान के पास हैं किस ख़ातिर?
तहज़ीब-ओ- सक़ाफ़त (1) का परचम
ईसार-ओ-मोहब्बत (2) का परचम
अब कौन यहां फैलाएगी?
अब कौन 'लता' कहलाएगी?
@मसूद बेग तिश्ना
7 फ़रवरी 2022, इंदौर
(1)सभ्यता व संस्कृति ( 2)त्याग व प्रेम

Sunday, February 6, 2022

Bulbule HindostaaN ‎بلبلِ ‏ہندوستاں ‏

::: بلبلِ ہندوستاں ،سُوَر کوکِلا خاموش ہوگئی :::
افسوس صد افسوس کہ بلبلِ ہندوستاں، سُوَر کوکِلا لتا منگیشکر جی نہیں رہیں. سب سے پہلے انہیں میری منظوم خراجِ عقیدت پھر کچھ باتیں :
::  آہ-لتا منگیشکر! ::
                                               ( 1929-2022 )
ل  : لتا اُمّ کلثوم تھیں ہند کی 
       سُوَر کوکِلا جن کو کہتے سبھی 
ت : تھرکتے تھے سُر کنٹھ میں جادوئی
      سُروں میں کشش، کنٹھ میں تازگی 
ا  : ابھی عمر تیرہ کی تھی بس ہوئی
      کہ پھر فکر گھر بھر کی سر آ پڑی

م  : مصیبت میں مالی پریشاں ہوئیں
      جوانی کے سُر سے گریزاں ہوئیں 
ن :  نئے سُر نئے تال کی بانگی
      تھی سنگھرش کی وہ نئی زندگی 
گ : گئی عمر شادی کی سنگھرش میں
      پِتا کی جگہ جو لی سنگھرش میں 
ی  : یہ جو فلمی گانوں نے پہچان دی
      نئے سُر دیئے اور نئی تان دی 
ش : شریک ان کے نغمے سماعت میں ہیں
       ثقافت میں، اپنی وراثت میں ہیں 
ک  : کہاں اب سُروں کی لتا ہے کہاں
       بدن خاک لیکن سُوَر جاوداں 
ر : ریاضت، یہ سنگیت کی سادھنا
     امر ہو گئی ان کی آرادھنا 

آہ! لتا منگیشکر نہیں رہیں. بلبلِ ہندوستاں، سُوَر کوکیلا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی. لتا جی 92 سال کی عمر میں آخری سانس لے کر اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئیں. لتا جی کے جانے سے ایک سُنہری، سنگیت مے یُگ کا انت ہو گیا. ایسی عظیم شخصیت صدیوں میں جنم لیتی ہے. اداکاراؤں کی تین نسلوں کو اپنی آواز میں نغمے دینے والی اور فلمی نغموں کے شائقین کی تین نسلوں کو متاثر کرنے والی یہ عجوبۂ روزگار شخصیت ہماری تہذیبی و ثقافتی پیچان کو بھی بخوبی اجاگر کرتی ہے. جو مقام مصری گلوکارہ امّ کلثوم کو مصر میں حاصل ہے وہی مقام بھارت میں لتا منگیشکر کو حاصل ہے. پورے بر صغیر ہند و پاک ہی نہیں دنیا میں جہاں جہاں بالی وڈ نغمے سنے جاتے ہیں، ان کا وجود، ان کی آواز کا جادو زندہ ہے اور لتا جی کے گزرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا. لتا جی نے ادا کاراؤں کی تین نسلوں کو اپنی آواز دینے کا عالمی ریکارڈ بنایا. مدھو بالا، نرگس سادھنا سے لے کے کر مادھوری دکشت،تک اور مادھوری دکشت سے لے کر پرینکا چوپڑا تک. 
لتا جی کے نام 36 زبانوں میں 3000 گانے گانے کا عالمی ریکارڈ  گینیز بُک میں درج ہے. جس میں تقریباً 300 ہندی ہندوستانی فلموں کے گانے بھی شامل ہیں. لتا جی نے ستّر سال تک لگاتار ہندی ہندوستانی فلمی گانے گائے. آخری ہندی گانا 2009 میں گایا. لتا دیدی نے ہر بڑے اور مشہور موسیقار کے ساتھ اور ہر بڑی اداکارہ کے لئے پلے بیک گانے گائے. پہلا نغمہ 13 سال کی عمر میں گایا. 'اے میرے وطن کے لوگو' نغمہ پنڈت نہرو کی بھی آنکھیں نرم کر گیا تھا. تب اندرا گاندھی نے اپنے دونوں بچوں سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی سے انہیں ملوایا تھا. 
لتا جی 28 ستمبر 1923 کو میں اِندور مدھیہ پردیش (تب سی پی اینڈ برار) میں پیدا ہوئیں اور 1945 کو بامبے (ممبئی) میں شفٹ ہوئیں. لتا جی نے آخری سانس برج کینیڈی اسپتال ممبئی میں لی جہاں وہ کووِڈ سے متاثر ہونے کے بعد مہینے بھر سے زیرِ علاج تھیں. سخت نمونیہ ہونے کے بعد سے وہ وینٹی لیٹر پر تھیں. 6 فروری 2022 کی صبح، مرکزی وزیر نِتِن گڈکری نے اسپتال سے ہی ان کے سانحۂ ارتحال کا اعلان کیا. بھارت سرکار نے دو دن کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے تو مہاراشٹر سرکار نے ایک دن کی تعطیل کے ساتھ پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ شام 6.30 بجے شوا جی چوک پر انتم بدائی کی تیاری کا اعلان. 
لتا منگیشکر کا پیدائشی نام کچھ اور تھا بعد میں پتا جی دینا ناتھ منگیشکر نے ان کا نام لتا منگیشکر رکھا، وہ پھر اسی نام سے وہ مشہور ہوئیں. ان کے پِتا کلاسیکل سنگر اور ڈراما آرٹسٹ تھے ان کی ماں گجراتی تھیں جن کا نام شیونتی تھا جو ان کے پتا کی دوسری بیوی تھیں. لتا منگیشکر سے چھوٹے ایک بھائی ہردے منگیشکر (سنگیت کار) اور تین چھوٹی بہنیں مینا کھانڈیکر (گائیکا ) ،آشا بھونسلے (گائیکا) اور اوشا منگیشکر (گائیکا) ہیں. 
ان کی اسکولی تعلیم پوری نہیں ہو پائی. وہ سنگیت کے پہلے استاد اپنے پِتا کو مانتی تھیں جنہوں نے پانچ چھ سال کی عمر میں اس بچّی میں سنگیت کو بستے دیکھ لیا تھا. لتا جی نے بچپن میں بہت چھوٹی عمر سے ہی شاستری سنگیت کی باقاعدہ تعلیم ایک مسلم استاد سے لی.
لتا جی تاعمر کنواری رہیں اور تاعمر سفید ساڑی زیب تن کیے رہیں گرچہ بارڈر پر کام ہوتا تھا
پِتا جی کی سنگیت کی وراثت ایک بیٹے اور چار بیٹیوں میں منتقل ہوئی. پِتا جی کے اچانک انتقال ہونے پر بڑی اولاد ہونے کے ناطے لتا جی نے بھائی بہنوں کی پوری پرورش کا ذمہ بحسن و خوبی نبھایا جبکہ خود ان کی عمر پدرانہ توجہ کی محتاج تھی. لتا جی سنگیت کی ہر وِدھا میں پارنگت تھیں، فلمی گانے، شاستری سنگیت، غزل گائیکی، قوالی، بھجن سبھی میں برابر کا ادھیکار. برٹش انڈیا میں انہوں نے شمشاد بیگم اور نور جہاں جیسی گلو کاراؤں کے بیچ اپنی جگہ بنائی. تقسیمِ ہند کے بعد کئی بڑی پاکستانی ہستیاں از راہ مذاق ہی صحیح کہا کرتی تھیں کہ بھارت تاج محل اور لتا منگیشکر دے دے تو پاکستان بدلے میں کشمیر دے دے گا. لتا جی دلیپ کمار (یوسف خان) کے گزرنے کے بعد مشترکہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی آخری زندہ نشانی تھیں. ممبئی میں 1993 کے بم دھماکوں اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر ممبئی میں برپا فسادات کے بعد، مراٹھا ذیلی قومیت کے شدت پسند علم بردار بال ٹھاکرے سے دلیپ کمار کا موہ بھنگ ہو گیا تھا مگر لتا جی نے اس بال ٹھاکرے کے خاندان سے آخری وقت تک نزدیکی بنائے رکھی. لتا جی سے نزدیکی کے دعوے دار پردھان منتری نریندر مودی بھی ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے ایک بار لتا جی کی یومِ پیدائش کی پیشگی مبارکباد کی نجی بات چیت کو اپنی سرکاری ریڈیو نشریات 'من کی بات' کا حصہ تک بنایا بنایا. دراصل لتا جی بڑے دل والی ملنسار شخصیت تھیں. بچپن کی سی معصومیت تاعمر انکی شخصیت کا حصہ بنی رہی 
بھارت سرکار نے پدم بھوشن، پدم وِبھوشن ،دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور آخر میں سب سے بڑے شہری ایوارڈ بھارت رتن سے نوازا.وہ تین قومی فلم ایوارڈ، چار فلم فئیر ایوارڈ،دو فلمی فئیر اسپیشل ایوارڈ، پندرہ بنگالی فلم جرنلسٹس ایسوسی ایشن ایوارڈ اور کئی انعامات سے نوازی گئیں. وہ بالی وڈ کی اور سنگیت کی دنیا کی سب سے زیادہ اعزازات و انعامات پانے والی پہلی شخصیت ٹھہریں. لتا جی کو کئی بار ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا. لتا جی کے اعزاز میں مدھیہ پردیش سرکار ان کے نام پر سنگیت میں سالانہ لتا منگیشکر ایوارڈ قائم کر رکھا ہے جو سنگیت کے میدان کے شہ سواروں کو ہر سال تفویض کیا جاتا ہے.
تحریر : مسعود بیگ تشنہ
6 فروری 2022 ،اِندور ،انڈیا

Friday, January 14, 2022

Aah Kamal Khan آہ - کمال خان!

 آہ - کمال خان! (1960-2022)

کمال خان ایک سچے، کھرے اور انتہائی مہذب اور سماج کو دِشا دکھانے والے این ڈی ٹی وی چینل کے سینیر صحافی تھے . ایسے صحافی خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں. ان کا اچانک اس طرح دنیا سے رخصت ہو جانا این ڈی ٹی وی چینل کا نقصان ہی نہیں، سچی قومی ہندی /ہندوستانی صحافت کا بڑا بھاری نقصان بھی ہے. دوسرا کمال خان پیدا ہونا مشکل ہے. تقریباً دو تین دہائی یعنی فروری 1995 سے وہ این ڈی ٹی وی ہندی چینل سے جڑے تھے. الیکٹرانک میڈیا میں آنے سے پہلے وہ پرنٹ میڈیا میں نوبھارت ٹائمز اور جاگرن سے جڑے ہوئے تھے. انہوں نے پچیس تیس سال میں ایودھیا کی جو رپورٹنگ کی ہے، انہیں جمع کر کے بے شک کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں. ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا وہ ایک دانشور صحافی کی طرح تھے. انہیں چوپائیاں از بر تھیں اور وہ موقع بہ موقع اس کا استعمال کرتے تھے. یوپی اور اپنے لکھنؤ کے سیاسی منظر نامے کو اپنی نم اور پھٹی آنکھوں سے انہوں نے بدلتے دیکھا اور لوگوں تک اسے جس کا تس پہنچایا. سنا گیا ہے کہ لکھنؤ میں مکھیہ منتری کے ایک پروگرام کو کَوَر کرنے سے انہیں روک دیا گیا تھا. آج 14 جنوری 2022 کو لکھنؤ میں اپنی رہائش گاہ میں اچانک آئے ہارٹ اٹیک سے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے جب کہ اچھی فٹنیس کے لئے وہ جانے جاتے تھے. وہ لکھنوی اور گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے. شاعری کی زبان میں اور شرافت کے لہجے میں اور بعض اوقات اس طرح دل برداشتہ ہوکر رپورٹنگ کرتے تھے کہ سننے دیکھنے والے کا دل بھر آتا تھا جیسے ایک بار رپورٹنگ کرتے وقت ان کا بھرے دل سے کہنا کہ آج لکھنؤ شرمندہ ہو گیا. نئی صحافت کے جو سچی صحافت کو زندہ رکھنے اور دیکھنے کی امید جگاتی تھی کمال خان ایک زندہ مثال تھے، وہ ایک مثال تھے وہ ایک مثال رہینگے. وہ کمال تھے وہ کمال رہینگے. افسوس! ہندوستان میں پھلتی پھولتی پیلی صحافت سے لوہا لیتا کھرا، سچا، شریف اور مہذب صحافی رخصت ہوا. زندہ باد کمال خان! الوداع!


:: آہ- کمال خان! ::                                                       

وہ صحافی بڑے کمال کا تھا

صاف ستھرا بڑے جمال کا تھا

این ڈی ٹی وی کا باکمال کمال

وہ انوکھا وہ بے مثال کمال 

وہ دکھاتا تھا جس کے تس منظر

وہ تو کچھ بھی نہیں چھپاتا تھا

تیسری آنکھ پس منظری پہ رکھ 

پیش منظر بھی وہ دکھاتا تھا

گنگا جمنی مزاج کا ہندی

سننے والوں کو خوب بھاتا تھا

وہ تھا چِنتک، مطالعہ والا 

ٹھہرے لہجے میں گُن گُناتا تھا

ٹھہرے لہجے میں بات کرتا تھا

وہ شریفانہ پیش آتا تھا.

دودھ کا دودھ پانی کا پانی

سچ کو ہر رنگ میں دکھاتا تھا

وہ خبر کی خبر بھی رکھتا تھا

آگے پیچھے نظر بھی رکھتا تھا 

زرد پھیلی ہوئی صحافت ہے

گنگا جمنا کا پانی گندہ ہے

ایسے ماحول میں بھی "تشنہ" جی 

آج ہے سوگوار لکھنؤ بھی

سوگوار ہند میں ہوئے لاکھوں 

لکھنؤ شہر میں بھی صدمہ ہے

@مسعود بیگ تشنہ

14 جنوری 2022 ،اِندور ،انڈیا


:: आह कमाल ख़ान! ::

(1960-2022)

वह सहाफ़ी बड़े कमाल का था

साफ़ सुथरा बड़े जमाल का था

एनडीटीवी का बा-कमाल कमाल

वह अनोखा, वह बे-मिसाल कमाल

वह दिखाता था जस के तस मंज़र

वह तो कुछ भी नहीं छुपाता था

उस से छुपता नहीं थी पस-मंज़र 

पेश-मंज़र भी वह दिखाता था

गंगा जमुनी मिज़ाज का हिंदी

सुनने वालों को ख़ूब भाता था

वह था चिंतक, मुतालआ वाला

ठहरे लहजे में गुनगुनाता था

ठहरे लहजे में बात करता था

वह शरीफ़ाना पेश आता था

दूध का दूध पानी का पानी

सच को हर रंग में दिखाता था

वह ख़बर की ख़बर भी रखता था

आगे पीछे नज़र भी रखता था

ज़र्द फैली हुई सहाफ़त है

गंगा जमुना का पानी गंदा है

ऐसे माहौल में भी "तिश्ना" जी

आज है सोगवार लखनऊ भी

 सोगवार हिंद में हुए लाखों

लखनऊ शहर में भी सदमा है

@मसूद बेग तिश्ना

14 जनवरी 2022, इंदौर, इंडिया

#ndtvsrjournalist

#KamalKhan