Thursday, June 16, 2022

Prof Gopi Chand Narang پروفیسر گوپی چند نارنگ

:: پروفیسر گوپی چند نارنگ نہیں رہے ::
آمد : 11 فروری 1931 دوکی،بلوچستان ،زیریں پنجاب (برطانوی ہند) رخصت : 15 جون 2022 شہر شیرلٹ، شمالی کیرولینا، یو ایس اے 
 ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بدھ کو شمالی کیرولینا (یو ایس اے) کے شہر شیرلٹ میں انتقال فرما گئے. آپ بیمار تھے اور امریکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے. آپ کے پسماندگان میں اہلیہ منورما نارنگ اور دو بیٹے ہیں. 
 تقسیمِ برطانوی ہند کے بعد آپ پاکستان سے ہندوستان آ گئے تھے. آپ کے والد معزز زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے. آپ کے والد نے ہی اپنے بیٹے کو ادب کی طرف مائل کیا. گوپی چند نارنگ صاحب نے دہلی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور شعبۂ تعلیم کی فیلوشپ حاصل کر کے پی ایچ ڈی کی. آپ کی تقرری عیسوی سنہ 1974 میں اردو کے پروفیسر کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی جیسی مقتدر یونیورسٹی میں ہوئی. آپ نے دو بار دہلی یونیورسٹی میں اپنی خدمات پیش کیں. غیر ملکی جامعات میں اپنی خدمات پیش کرنے کے دوران آپ وِسکونسن یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہے اور اوسلو یونیورسٹی اور مینیسوٹا یونیورسٹی میں بھی تعلیمی خدمات پیش کیں. سرائیکی آپ کی مادری زبان تھی. ہندی، اردو، فارسی، انگریزی پر آپ کو یکساں عبور حاصل تھا.
آپ کی غیر معمولی شہرت اردو کے نامور ادیب، نقاد، محقق،ماہرِ لسانیات، ماہرِ اسلوبیات ، نظریہ ساز اور میر و غالب شناس کے طور پر رہی ہے. آپ بھارتیہ تنقیدی اصول داں اور نظریہ ساز کے طور پر غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں. لسانیات، اسلوبیات، ساختیات اور پسِ ساختیات پر آپ کا کام اہم مانا جاتا ہے. عیسوی سنہ 1995 میں آپ کی تنقیدی کتاب 'ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات' پر آپ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا. مشرقی شعریات اور سنسکرت شعریات پر آپ نے سیر حاصل کام کیا ہے. 1961 میں آپ کی پہلی تصنیف 'دہلوی اردو کی کرخنداری بولی' پر منظر عام پر آئی جو دہلی کے مقامی مزدوروں اور کاریگروں کی مٹتی بولی ہے. 
آپ نے سنہ 2014 ع میں شونیتا (خالی پن) کے تناظر میں کلامِ غالب کی نئی تفہیم کی جو ابھی تک حرفِ آخر ہے. اردو املا اور تلفظ پر آپ کا ایک طویل مضمون اردو املا اور تلفظ پر کام کرنے والوں کے لئے آج بھی مشعلِ راہ ہے. تہذیب و ثقافت ،ادب اور تنقید پر آپ کی پینسٹھ (65) سے زیادہ تصنیفات ہیں. آپ کی تصنیفات کی تعداد اردو میں 40 سے زیادہ ، انگریزی میں 15 اور ہندی میں 8 ہے. اردو ادب کے سفیر کے طور پر بھی آپ کی کافی بین الاقوامی شہرت رہی ہے. نارنگ صاحب کے سماجی تہذیبی اور تواریخی مطالعات میں کچھ اہم مطالعات یوں ہیں : ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں (1961) ،سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ (1986) امیر خسرو کا ہندوی کلام (1987) ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب (2002) ،ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اردو شاعری (2003) ،اردو زبان اور لسانیات (2006). 
پدم شری، پدم بھوشن (بھارت)، ستارۂ امتیاز (پاکستان)، گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ا،دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ای امریٹس، 1998 سے 2002 تک نائب صدر اور 2003 سے 2007 تک ساہتیہ اکادمی کے صدر رہے. آپ کچھ عرصے پہلے تک ساہتیہ اکادمی کی سلیکشن کمیٹی سے منسلک رہے تھے. اردو اکیڈمی، دہلی اور اور قومی کونسل برائے فروغِ اردو، نئی دہلی کے بھی مختلف دورانیوں میں وائس چیئرمین رہے. آپ کی علمی، ادبی و ثقافتی خدمات کے لئے کئی ممالک میں آپ کو بین الاقوامی خطابات سے نوازا گیا. حکومتِ پاکستان نے اقبال پر فکر انگیز کام کے لئے آپ کو پریسیڈنٹز گولڈ میڈل سے بھی نوازا. آپ کی کچھ اردو تصانیف کے ترجمے انگریزی زبان میں بھی ہوئے ہیں. 
 ابھی حال ہی میں غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک اعزازی پروگرام بھی کیا تھا.
 اکیانوے سال کی لمبی عمر پانے کے بعد آپ کے گزر جانے سے تنقید، تحقیق اور لسانیات کے ایک زریں عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے.
ہر بڑی شخصیت کے ساتھ کچھ متنازعہ اور ناگوار باتیں بھی شاملِ تذکرہ رہتی ہیں. نارنگ صاحب کے تعلق سے یہ بات کافی مشہور ہے کہ انہوں نے ساہتیہ اکادمی میں اپنا دبدبہ اس حد تک بنا کر رکھا تھا کہ اردو کے کھاتے میں انعامات کی تقسیم صرف ان کی ذاتی پسند سے ہوتی تھی. ایک عرصہ ایسا بھی گزرا کہ ان کے رہتے ہوئے اردو کے کھاتے میں ایک انعام نہیں آیا. 
تقریباً پینتیس چالیس سال پہلے کی بات ہے. میں بیس پچیس سال کا رہا ہونگا. برہانپور میں ہر سال گنیش اتسو کے موقع پر دس روزہ ساروجَنِک ویاکھیان مالا (لکچر سیریز) کا انعقاد ہوتا تھا. (اب بھی شاید ہوتا ہو) جس میں ہندوستان کے ہر اہم شعبے کی نامی شخصیات کو اہم موضوعات پر سننے کا موقع مل جاتا تھا. گوپی چند نارنگ صاحب کا بھی لیکچر تھا. غالباً اسی تقریر کے سلسلے میں، میں نے گوپی چند نارنگ کو ایک خط لکھا تھا. ان کا جواب بھی آیا تھا. تب اردو میں ٹائپ رائٹر پر لکھا خط میں نے پہلی بار دیکھا تھا.
@مسعود بیگ تشنہ
15 جون 2022 ،اِندور ،انڈیا

No comments:

Post a Comment