Tuesday, September 19, 2017

سمجھوتہ (نظم) NAZM... SAMJHAUTA


سمجھوتہ (نظم)

تیری نظروں کا یہ خاموش تکلم مُجھ کو۔
تیری گُفتار کی سوگند بہت پیارا ہے۔
مُجھ کو معلوم ہے دِل ٹوٹا ہُوا ہے تیرا۔
اور شکستہ ہے یہ پیمانہ ئے دل بھی میرا۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہے گم کردہ ئے منزِل تُو بھی۔
یہ بھی سچ ہے کہ  ہوں گم کردہ ئے ساحل میں بھی۔
کیوں نہ ہم ایک ہی منزِل کے مسافر بن جائیں۔
کیوں نہ پھِر دِل کے پریشان کنارے مل جائیں۔
ایک ہی سمت میں بڑھ جائیں تمنّا کے قدم۔
ایک ہی سانس میں جل جائیں محبّت کے چراغ۔
تُو گرا دے یہ سبھی شرم و حیاء کے پردے۔
اور چہرے سے ہٹا دے یہ تکلّف کا نقاب۔
زندگی پیار کہاں پیار کا سمجھوتہ ہے۔
آ کہ یہ پیار کا سمجھوتہ مقددر کر دیں۔
تیری نظروں کا یہ خاموش تکلم مُجھ کو۔
تیری گُفتار کی سوگند بہت پیارا ہے۔

کلام : مسعود بیگ تشنہ برہان پوری
تاریخِ کلام : 19 ستمبر 1977

No comments:

Post a Comment