Saturday, September 30, 2017

DUSSHEHRA دشهرا


Kab aayega Dusshehra :

 hathiyaroN ke dher lagaaye , khoob lagaaye phera.
Nafrat ke baazaar sajaye shaitaanoN ka dera.
Apni taaqat aur daulat ki bhuuk mitaane dekho.
Jaane kab ye palti khaaye , kab ye tode ghera.
Dehshatgardi naqd tijaarat , dehshat naqd
 siyasat.
Dehshat ka maahaul banaa hai , har su ghor andhera.
In shaitaanoN ka zor bahaut hai , kab aaoge Ram.
Kab aayegi diwali ye , kab aayega Dusshehra.
Kalaam : Masood Baig Tishna

कब आएगा दशहरा  :

हाथियारों के ढ़ेर लगाए  , खूब लगाए फेरा .
नफ़रत के बाजार सजाए  शेतानों का ड़ेरा .
अपनी ताकत और दौलत की भूख  मिटाने देखो .
जाने कब यह पलटी खाएे  , कब यह तोड़े घेरा .
देहशत गर्दी नगद तिजारत  , देहशात नगद सियासत .
देहशात का माहौल बना है  , हर सू घोर अंधेरा .
इन  शेतानों का ज़ोर बहुत है  , कब आओगे  राम .
कब आएगी दीवाली ये  , कब आएगा दशहरा .
क्लाम  : मसूद बेग तिशना


کب آئیگا دشہرا :

ہتھیاروں کے ڈھیر لگائے خُوب لگائے پھیرا۔
نفرت کے بازار لگائے شیطانوں کا ڈیرہ۔
اپنی طاقت اور دولت کی بھوک مٹانے دیکھو۔
جانے کب یہ پلٹی کھائے ، کب یہ توڑے گھیرا۔
دہشت گردی نقد تجارت ، دہشت نقد سیاست۔
دہشت کا ماحول بنا ہے ، ہر سُو گھور اندھیرا۔
اِن شیطانوں کا زور بہت ہے ، کب آؤگے رام۔
کب آئےگی دیوالی یہ ، کب آئےگا دشہرا۔
کلام : مسعود بیگ تشنہ


Thursday, September 28, 2017

QATA قطعہ

Qata:
Ahle baatil hoN ya ke ahle Yazeed.
Jeet kar jang haar jaate haiN.
Haq ki khushnudi o raza wale.
Jaan de kar hyaat paate haiN.
Kalaam : Masood Baig Tishna

قطعہ :
اہلِ باطل ہوں یا کہ اہلِ یزید۔
 جیت کر جنگ ہار جاتے ہیں۔
 حق کی خوشنودی و رضا والے۔
 جان دے کر حیات پاتے ہیں۔
کلام :  مسعود بیگ تشنہ
क़तआ :
अहले बातिल हो या के अहले य़जीद .
जीत कर  जंग हार जाते हैं .
हक की खुशनूदी ओ  रज़ा waale .
जान दे कर ह्यात पाते हैं .
कलाम  : मसूद बेग तिशना

Tuesday, September 26, 2017

BULLET TRAIN بُلیٹ ٹرین


बुलेट ट्रेन

 स्वाद ए शब में सहर का धोका .
हसीन मंज़र  , नज़र का धोका .
डिरेल होती हमारी गाड़ी .
बुलेट ट्रेन के सफर का धोका .
कलाम : मसूद बेग तिशना  

Bullet train
 Sawaad e shab meiN sahar ka dhoka .
Haseen manzar , nazar ka dhoka .
 Derail hoti hamari gaadi .
Bullet train ke safar ka dhoka .
Kalaam : Masood Baig Tishna

بُلیٹ ٹرین
سوادِ شب میں سحر کا دھوکا۔
حسین منظر ، نظر کا دھوکا۔
ڈی ریل ہوتی ہماری گاڑی۔
بُلیٹ ٹرین کے سفر کا دھوکا۔
کلام : مسعود بیگ تشنہ

ATOMI HATHIYAARr ایٹمی ہتھیار


Atomi Hathiyaar
Karde na barbaad kahiN ye hathiyaroN ki dau'd.
Jaane kis rukh le jayegi sarkaaroN ki dau'd.
Phir shaayad aabaad na hogi insaanoN ki basti.
Takkar dekar khatm karegi raftaaroN ki dau'd.
Kalaam : Masood Baig Tishna Burhanpuri
ایٹمی ہتھیار
کردے نہ برباد کہیں یہ ہتھیاروں کی دوڑ۔
جانے کس رُخ لے جائیگی سرکاروں کی دوڑ۔
پھِر شائد آباد نہ ہوگی انسانوں کی بستی۔
ٹکر دے کر ختم کریگی رفتاروں کی دوڑ۔
کلام : مسعود بیگ تشنہ برہان پوری





Tuesday, September 19, 2017

سمجھوتہ (نظم) NAZM... SAMJHAUTA


سمجھوتہ (نظم)

تیری نظروں کا یہ خاموش تکلم مُجھ کو۔
تیری گُفتار کی سوگند بہت پیارا ہے۔
مُجھ کو معلوم ہے دِل ٹوٹا ہُوا ہے تیرا۔
اور شکستہ ہے یہ پیمانہ ئے دل بھی میرا۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہے گم کردہ ئے منزِل تُو بھی۔
یہ بھی سچ ہے کہ  ہوں گم کردہ ئے ساحل میں بھی۔
کیوں نہ ہم ایک ہی منزِل کے مسافر بن جائیں۔
کیوں نہ پھِر دِل کے پریشان کنارے مل جائیں۔
ایک ہی سمت میں بڑھ جائیں تمنّا کے قدم۔
ایک ہی سانس میں جل جائیں محبّت کے چراغ۔
تُو گرا دے یہ سبھی شرم و حیاء کے پردے۔
اور چہرے سے ہٹا دے یہ تکلّف کا نقاب۔
زندگی پیار کہاں پیار کا سمجھوتہ ہے۔
آ کہ یہ پیار کا سمجھوتہ مقددر کر دیں۔
تیری نظروں کا یہ خاموش تکلم مُجھ کو۔
تیری گُفتار کی سوگند بہت پیارا ہے۔

کلام : مسعود بیگ تشنہ برہان پوری
تاریخِ کلام : 19 ستمبر 1977

QATA قطعہ


قطعہ

مرنے سے پہلے ہی کرلو اپنے من کی بابا۔
ورنہ مرنے پر ہووےگا مرنے کا پچھتاوا۔
اپنوں کے سب رشتے جی لو ، بولو ، ہنس لو ،رولو۔
دُنیا کے پیچھے نہ بھاگو ، خود کو جانو سارا۔
شاعر : مسعود بیگ تشنہ
نوٹ : اس قطعے کا محرّک یہ درج ذیل مضمون ہے۔
" مرنے سے کچھ پہلے پانچ بڑے پچھتاوے "
" برونی وئیر "(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔
وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔
ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔
ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔
کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔
اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے‘ اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔
برونی نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔
خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز اور کوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔ چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پرایک (Blog) کی شکل میں مرتب کرناشروع کر دیا۔
اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اور مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔
اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔
یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔
اس کتاب کانام
” مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے”
The top five regrets of Dying
تھا۔
برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے!
دنیا چھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔
برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔
دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکر دیا۔ کام ان کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔
برونی نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔
تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔
اکثر لوگوں نے خودسے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔
بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔
مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔
چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔
اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔
ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔
برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔
اکثر مریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔
برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔
مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی!
پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی. تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔
اکثریت نے دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔
دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا
کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوب صورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔
عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔
نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔
پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔
آپ سب کیلئے محبت

Monday, September 11, 2017

SWAMI VIVEKANAND سوامی وویکانند


:: سوامی وویکانند ::
دھرم کی دھرماندھتا سے دُور جاکر دیکھ لی۔
جسنے ہندوستان کی تہذیب کی وہ آتما۔
آج جو گھائل پڑی ہے چاہنے والوں کے بیچ۔
آج جسکا دے رہے ہیں نام لےکر واسطہ۔
شاعر : مسعود بیگ تشنہ

:: स्वामी विवेकानंद ::
धर्म की धर्मांधता से दूर जा कर देख ली 
जिस ने हिन्दुस्तान की तहज़ीब की वह आत्मा 
आज जो घायल पड़ी है चाहने वालों के बीच 
आज जिस का दे रहे हैं नाम ले कर वास्ता 
शायर : मसूद बेग तिश्ना 
 
::  SWAMI Vivekanand ::

Dharm ki dharmaandhta se duur jaa kar dekh li.
Jis ne hindustan ki tehzeeb ki wo aatma.

Aaj jo ghayal padi hai chaahne waaloN ke beech.
 Aaj jis ka naam le kar de rahe haiN waasta.
Shair : Masood Baig Tishna

Thursday, September 7, 2017

QATAAT قطعات


क़ता ...1

जुल्म ये इंसानियत पर म्यान्मार .
शर्म कर हैवानियत पर म्यान्मार .
बन्द कर ये मुस्लिमों का कतल ओ खूँ .
गौर कर हककानियत पर म्यान्मार .
(मसूद बेग तिशना )

क़ता ...2

दीन पे चलना , वफा करना , मुसलमां होना .
किया गुनाह है किसी इंसान का इंसां होना ?.
म्यान्मार हो या कोई देश ये क्यों है या रब .
बे वतन होना मुसलमां मुसल्मां का ह्रासां होना .
(मसूद बेग तिशना )

قطعہ۔۔۔1

ظُلم یہ اِنسانیت پر میانمار۔
شرم کر حیوانیت پر میانمار۔
بند کر یہ مسلموں کا قتل و خوں۔
غور کر حققانیت پر میانمار۔
(مسعود بیگ تشنہ)

قطعہ۔۔۔2

دین پر چلنا ، وفا کرنا، مسلماں ہونا۔
کیا گناہ ہے کسی انسان کا انساں ہونا۔
میانمار ہو یا کوئی دیش یہ کیوں ہے یارب۔
بے وطن ہونا مسلماں کا ہراساں ہونا۔
(مسعود بیگ تشنہ)

Qata...1

Zulm ye insaaniyat pe Myanmar .
Sharm kar haiwaniyat pe Myanmar .
Band kar ye muslimoN qatl o khooN .
Ghaur kar haqqaniyat par Myanmar.
(Masood Baig Tishna)

Qata ...2

Deen pe chalna , wafa karna, musalmaaN hona .
Kiya gunah hai kisi insaan ka insaaN hona .
Myanmar ho ya koi desh  ye kyoN hai ya rab .
Bey watan hona musalmaaN ka harasaaN hona .
(Masood Baig Tishna)