غزل....جو آج سر پہ ہے سورج وہ ڈھل بھی سکتا ہے
تیرے عروج کا نقشہ بدل بھی سکتا ہے
جو آج سر پہ ہے سورج وہ ڈھل بھی سکتا ہے
بغیر تیر کے سادھا ابھی نشانے کو
سنبھل کہ تیر کماں سے نکل بھی سکتا ہے
ہماری غیرت _قومی پہ طنز نہ کرنا
لہو جگر کا کسی پل اچھل بھی سکتا ہے
امیر _شہر کرے فکر آب و دانے کی
غریب _شہر تو ٹکڑوں پہ پل بھی سکتا ہے
نظر کا ٹوٹکا رنگ لاۓ نہ کہیں ورنہ
حسد کی آگ میں کم عقل جل بھی سکتا ہے
مقابلے میں نہیں دھیمی چال کچھوے کی
جو سوتا دکھتا ہے `تشنہ`وہ چل بھی سکتا ہے
یہ حسن و عشق کی وادی ہے دلنشیں تشنہ
ذرا سنبھل کے ،یہ پاؤں پھسل بھی سکتا ہے
شاعر : مسعود بیگ تشنہ ،اندور ،انڈیا
تاریخ کلام : ٠٦ فروری ٢٠١٦
تیرے عروج کا نقشہ بدل بھی سکتا ہے
جو آج سر پہ ہے سورج وہ ڈھل بھی سکتا ہے
بغیر تیر کے سادھا ابھی نشانے کو
سنبھل کہ تیر کماں سے نکل بھی سکتا ہے
ہماری غیرت _قومی پہ طنز نہ کرنا
لہو جگر کا کسی پل اچھل بھی سکتا ہے
امیر _شہر کرے فکر آب و دانے کی
غریب _شہر تو ٹکڑوں پہ پل بھی سکتا ہے
نظر کا ٹوٹکا رنگ لاۓ نہ کہیں ورنہ
حسد کی آگ میں کم عقل جل بھی سکتا ہے
مقابلے میں نہیں دھیمی چال کچھوے کی
جو سوتا دکھتا ہے `تشنہ`وہ چل بھی سکتا ہے
یہ حسن و عشق کی وادی ہے دلنشیں تشنہ
ذرا سنبھل کے ،یہ پاؤں پھسل بھی سکتا ہے
شاعر : مسعود بیگ تشنہ ،اندور ،انڈیا
تاریخ کلام : ٠٦ فروری ٢٠١٦
No comments:
Post a Comment