A Tribute to Late Zulfiquar Ali Bhutto
ذولفقار علی بھٹو کی شہادت پر ٠٥-٠٤-١٩٧٩کو لکھی گئی نظم -شہادت کی برسی پر ایک خراج عقیدت
رات تاریک تھی ہر سمت تھا ایک سنّاٹا
رات بے روح تھی ،ہرسمت تھی خاموش پھبن
ابھی گھنٹے نے بجانےبھی نہ تھے ڈھائی
دفعتاً ہاتھ میں لیکر سیاہ پروانۂ موت
چند حکومت کے غلام ،حکم کے بندے آئے
اور سنا کر اسے پیغامِ اجل آخری بار
زندگی سے گلے ملنے کے لئے چھوڈ دیا
ہاۓ وہ وقت کہ جب وقت بھی کچھ کر نہ سکا
لوگ بھی نیند کی غفلت میں پڑے سوتے رہے
آدھے گھنٹے کا یہ وقفہ بھی عجب وقفہ تھا
زندگی جب گلے مل مل کے بہت روئی تھی
جیل کے تنگ حصاروں میں گِھرے سب قیدی
بھیگی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہے تھے لیکن
وہ بھی مجبور تھے مجبور گزرتی گھڑیاں
وہ بھی معزور تھے ،معزور گزرتے لمحے
لڑکھڑاتے ہوئے ،خون روتے سسکتے لمحے
موت بر حق ہے مگر کاش نہ آئی ہو تی
ایک مسیحا کو مسیحا تو نہ پھانسی دیتا
ایک طرف قوم کا بیدار مسیحا خاموش
ایک طرف جان پہ آمادہ مسیحا جلّاد
ایک طرف اپنے ہی فرمان پہ روتا قانون
ایک طرف چند سیاہ قلب محافظ اسکے
دیکھنا چاہتے تھے فرمان کا سچ ہو جانا
ایک مسیحا کا مسیحا کا ہی قاتل بننا
اور بگڑے ہوئے ایمان کا سچ ہو جانا
وہ مسیحا تھا بھلا خود کو ہی قاتل کہتا
حق کو حق کیوں نہیں کہتا ،کیوں باطل کہتا
قوم کا حال وہ مستقبل و ماضی تھا وہی
وہ ہی ٹوٹی ہی کشتی کا کِھوَیّا تھا مگر
وہ ہی ٹوٹے ہوئے سپنوں کا مسیحا تھا مگر
ایک مسیحا نے مسیحا کو ہی پھانسی دے دی
ایک قاتل نے مسیحا کی بدل کر پوشاک
رات کے اونگھتے سنّاٹے میں چپکے چپکے
ایک مسیحا کو زبردستی بنا کر قاتل
جانے کس خوف سے کس خیال سے پھانسی دے دی
سازشوں کے بنے سخت جال سے پھانسی دے دی
حال کو حال نے ہی حال سے پھانسی دے دی
مگر تصویر کا صرف ایک ہی پہلو تو نہیں
جان دے کر بھی تو وہ زندہ رہیگا سب میں
حال کی مانگ میں سندور لہو کا بن کر
پھر نئی آب نئی تاب سے جی اٹّھیگا
پھر نئی روح وہ پھونکیگا نئے جسم کے ساتھ
پھر نیا رنگ وہ لائے گا نئے نظم کے ساتھ
پھر وہ غفلت میں پڑی قوم سنبھل جائے گی
کلام : مسعود بیگ تشنہ
برہانپور ،مدھیہ پردیش ،انڈیا